یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ حادثے انسانوں کی زندگی اور تاریخ، دونوں میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے دوران بہت سے حادثے اور غیر معمولی اتفاقات دیکھے ہیں، لیکن میں نے کبھی حالات کی اتنی غیر متوقع کڑیاں ملتے ہوئے نہیں دیکھیں جن کا میں یہاں ذکر کرنے جا رہا ہوں
نومبر 1918ء کے جرمن انقلاب نے کروڑوں لوگوں کو اپنے حصار میں لیاجن کی اکثریت کا پہلے کبھی کوئی سیاسی ماضی نہیں رہا تھا۔ بالکل روس کی طرح وہ لوگ جو نئے نئے سیاسی میدان میں داخل ہوئے انہوں نے انہی پارٹیوں کا رخ کیا جنہیں وہ پہلے سے جانتے تھے۔ فروری کے بعد روس میں اقتدار منشویکوں اور سوشل ریولوشنریز (SRs) کے پاس چلا گیا
ایک سو ایک سال قبل روس میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ محنت کش طبقے نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اورمٹھی بھردولت مند طبقے کی حاکمیت سے نجات حاصل کی تھی
اتھیسٹ یا ملحد وہ ہوتا ہے جو صرف خدا اور اس سے کی گئی ہوائی باتوں سے انکار کرے کیونکہ زمانہ قدیم میں مذہب ایک ایسا ادارہ تھا جس سے نظام حکومت چلایا جاتا تھا مذہب صرف خدا اور اسکی عبادت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ
آئن سٹائن نے کہا تھا ، ’’ایک ہی کام کو بار بار دہرائے جانا اور سمجھنا کہ اس سے نتائج مختلف نکلیں گے، احمقانہ پن ہوتا ہے۔‘‘ تو پھر مارکسسٹ آخر سوشلزم کی جدوجہدکو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے ؟
کوئی وقت تھا جب سوشلسٹ ہونا ہی دانش مندی اور دانشوری مانا جاتا تھا۔ تب دانشور کہلوائے جانے کے شوقینوں نے جوق در جوق سوشلسٹ کہلوانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی باقیات میں سے کچھ گلی سڑی شکل میں ابھی بھی باقی ہیں
بہت سالوں سے مزدور تحریک اور یہاں تک کہ بائیں بازو میں بھی محنت کشوں کے کنٹرول کو لے کر کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ’’محنت کشوں کے کنٹرول کی تعلیم دینے والا ادارہ‘‘ بھی قائم کیا گیا، جیسے اسے سمجھنے کے لئے کسی ڈگری یا ڈپلومہ کی ضرورت ہو۔
الجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو سائنس کو محض اس لیے راہنما قرار دینے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اس سے ان کے مذہبی عقیدوں کو زک پہنچ سکتی ہے
دو صدیوں پہلے ایک ایسے بچے کا جنم ہوا جس کے نام اور کمیونسٹ انقلاب کے خیال سے ہی عالمی حکمران طبقات لرز اٹھے تھے۔ لیکن ایک صدی سے زیادہ عرصے کے جھوٹ، بہتان تراشی، کردار کشی اورتمسخر کے باوجود کارل مارکس کا بھوت آج بھی ان کے اعصاب پر سوار ہے
اگر ہم فرانس کو دیکھیں تو یہاں بھی ہمیں دو طبقات کا تصادم نظر آتا ہے اسکے علاوہ آرٹ میں بھی ہمیں دو ثقافتوں کا تصادم دکھائی دیتا ہے۔یقیناًیہ بات میں ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا کہ ہمیں بالکل طے شدہ رشتوں کو متعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، یہ ایک غلطی ہوگی۔
14 مارچ کو دوپہر پونے تین بجے ہمارے عہد کا عظیم ترین مفکر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ وہ بمشکل دو منٹ کے لئے ہی تنہا رہا اور جب ہم واپس آئے تو وہ اپنی کرسی پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔ابدی نیند۔